جمعرات 4 دسمبر 2025 - 11:06
حضرت اُمّ البنینؑ نے ولایت کی راہ میں بے مثال قربانی دی: مولانا سید علی عباس امید اعظمی

حوزہ/ نئی ممبئی کے امام جمعہ، حجۃ الاسلام مولانا سید علی عباس امید اعظمی سے حوزہ نیوز ایجنسی نے حضرت اُمّ البنینؑ کی سیرت اور عصر حاضر کے تقاضے کے موضوع تفصیلی گفتگو کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پنویل، نئی ممبئی کے امام جمعہ، حجۃ الاسلام مولانا سید علی عباس امید اعظمی سے حوزہ نیوز ایجنسی نے حضرت اُمّ البنینؑ کی سیرت اور عصر حاضر کے تقاضے کے موضوع تفصیلی گفتگو کی۔

مکمل انٹرویو درج ذیل ہے:

حوزہ: حضرت اُمّ البنینؑ کے تعارف میں آپ کن پہلوؤں کو بنیادی سمجھتے ہیں؟

مولانا سید علی عباس امید اعظمی:

حضرت اُمّ البنینؑ کی زندگی ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر ورق پر وفا، ایثار، بصیرت اور اخلاص کے روشن عنوان درج ہیں۔ آپؑ نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہو کر صرف ایک بیوی کا کردار ادا نہیں کیا بلکہ ایک مربیہ، ایک نگہبانِ ولایت اور ایک ایسی ماں کا کردار ادا کیا جس نے اپنی اولاد کو دینِ خدا کی راہ میں پیش کرنے میں ذرا تردد نہیں کیا۔

ان کی خصوصیت یہ نہیں کہ ان کے چار بیٹے شہید ہوئے بلکہ اصل کمال ان کا نقطۂ نظر تھا، یعنی حسینؑ کی محبت اور ولایت کو اولاد سے بھی مقدم رکھنا، ایسی عظیم سوچ صدیوں میں کبھی کسی شخصیت میں نظر آتی ہے۔

حوزہ: آپ نے فرمایا کہ ماں کی آغوش انسان سازی کی پہلی درسگاہ ہے۔ اس کا عصر حاضر کے تناظر میں کیا مطلب بنتا ہے؟

مولانا سید علی عباس امید:

آج دنیا میں تربیت کے نام پر بے شمار ادارے موجود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بچے کی شخصیت کی بنیاد ماں کی گود میں ہی بنتی ہے۔

سورہ اعراف کی آیت 58 اس حقیقت کی بہترین تشریح ہے کہ پاک زمین—پاک ثمرات پیدا کرتی ہے۔

ماں اگر فکر، اخلاق، دین اور شعور کے پاک بیج بوئے تو اس کے بچے باغِ رسالت کے خوشبو دار پھول بن کر ابھریں گے۔

آپ دیکھئے، حضرت اُمّ البنینؑ کی گود میں عباسؑ جیسا فرزند پروان چڑھا، اخلاق میں دریا، وفا میں پہاڑ، بہادری میں تاریخ کا سب سے روشن کردار۔

آج اگر ہمارے گھروں میں اخلاقی بحران اور بے سمتی نظر آ رہی ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ نئی نسل کی تربیت سے ماں کی گود کا کردار کمزور کیا جا رہا ہے۔

حضرت اُمّ البنینؑ اس خلا کو پُر کرنے کا عملی نمونہ ہیں۔

حوزہ: سیرتِ نبویؐ میں ماں کی عظمت پر جو تاکید ہے، اسے آج کی مسلم خواتین کیسے اپنا سکتی ہیں؟

مولانا سید علی عباس امید:

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح ماں کے قدموں کو جنت کا راستہ قرار دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کا مستقبل ماں کے ہاتھ میں ہے۔

افسوس کہ آج کی دنیا ماں کی ذمہ داریوں کو کم کر کے پیش کرتی ہے؛ جبکہ اسلام اسے نسل کے مستقبل کا ستون مانتا ہے۔

آج کی عورت اگر چاہے تو اپنے گھر کو ایک چھوٹی یونیورسٹی بنا سکتی ہے جہاں اخلاق کا درس ملے، قرآن کی روشنی ہو، ولایت کی محبت ہو، حق و باطل کی پہچان ہو۔

حضرت اُمّ البنینؑ نے اپنے بیٹوں میں یہی چار صفات اُتاریں اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔

حوزہ: حضرت اُمّ البنینؑ کی کون سی صفات آج کے دور میں سب سے زیادہ قابلِ تقلید ہیں؟

مولانا سید علی عباس امید:

میں تین خصوصیات کو سب سے اہم سمجھتا ہوں:

(1) بصیرت

بصیرت صرف معلومات کا نام نہیں؛ بلکہ حالات کی گہرائی، کرداروں کی پہچان اور فیصلوں کی درستگی کا نام ہے۔

حضرت اُمّ البنینؑ نے گھر میں داخل ہوتے ہی فرمایا: "مجھے فاطمہ نہ کہئے گا" تاکہ کسی مقدمۂ حسینیؑ میں فاطمہؑ کی یاد کو بھی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ صرف ادب نہیں بلکہ بصیرت کا مظاہرہ ہے، وہ جانتی تھیں کہ اس گھر میں فاطمی فضا کتنی مقدس ہے۔

(2) ولایت و محبتِ حسینیؑ

آپؑ نے کبھی اپنے بیٹوں کی حفاظت کی فکر نہیں کی بلکہ امام حسینؑ کی سلامتی پر جان تک قربان کرنے کے لئے تیار رہیں۔

آپؑ کا جملہ "میری تمام اولاد حسینؑ پر قربان"

یہ صرف محبت نہیں، ولایت کا اعتقاد ہے۔

(3) دین کی راہ میں ایثار

یہ ایثار صرف جنگی میدان تک محدود نہیں، آپؑ نے اپنی پوری زندگی دین کے اصولوں کے ساتھ گزاری، گھر چلایا، اولاد کی تربیت کی، شوہر کا ساتھ نبھایا، اور پھر آخری مرحلے میں اولاد کو بھی دین پر قربان کر دیا، یہ دین داری کا بلند ترین مقام ہے۔

حوزہ: آج کی خواتین حضرت اُمّ البنینؑ کی سیرت سے عملی طور پر کیا سبق لے سکتی ہیں؟

مولانا سید علی عباس امید:

حضرت اُمّ البنینؑ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ عورت اگر اپنے کردار میں اخلاص، عقل، غیرتِ ایمانی اور تربیت کا شعور پیدا کر لے تو معاشرہ خود بخود سنور جاتا ہے۔

عورت آج بھی اپنی گود سے عباسؑ جیسے باوفا جوان پیدا کر سکتی ہے، معاشرے میں روشنی کا ذریعہ بن سکتی ہے، اور دین کی خدمت میں عملی کردار ادا کر سکتی ہے۔

ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ اپنی قدروں کو پہچانے،

گھر کو کمزوری نہیں بلکہ انسان سازی کا مرکز سمجھے،

اور اپنی اولاد کی فکر کو دنیاوی ترقی سے زیادہ اخلاقی ترقی پر مرکوز کرے۔

حوزہ: آخر میں، حضرت اُمّ البنینؑ کی شخصیت سے ہمارے قارئین کے لئے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

مولانا سید علی عباس امید:

حضرت اُمّ البنینؑ کا پیغام یہ ہے کہ جس کے دل میں ولایت کی محبت اور ذمہ داری کا شعور ہو، وہ اپنی زندگی کو بھی باعزت بناتا ہے اور اپنی اولاد کو بھی تاریخ کا روشن باب بنا دیتا ہے۔

وہ ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ بصیرت فیصلہ سازی کا نور ہے، وفاداری انسان کو محبوبِ ولایت بناتی ہے، اور ایثار انسان کو زندۂ جاوید کر دیتا ہے۔

حضرت اُمّ البنینؑ کا کردار یہ بتاتا ہے کہ عورت اگر چاہے تو ایک گھر نہیں، ایک پوری قوم کو بدل سکتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • احمد رضا الحسینی NL 17:21 - 2025/12/04
    سلام ورحمتہ! بہت عمدہ خطبہ ہے ۔کریم پروردگار زوربیان اور صالح فکر میں اور اضافہ فرمائے۔ شک نہیں ہے کہ جسطرح حضرت ابوطالب ع اور حضرت فاطمہ بنت اسد نے فقط بھتیجہ سمجھکر سرور کائنات کی حفاظت نہیں کی بلکہ دونوں معرفت شناس تھے اور نبئ آخر سمجھ کر تحفظ کرتے تھے ورنہ ایسا ممکن نہیں تھا کہ شعب ابوطالب ع میں نبئ کریم کے سونے کی جگہ پر اپنے گود کے پالوں کو سلادیں کہ اگر کوئ قتل کے ارادہ سے آئے تو ہمارے بچے قربان ہوجائیں اور اسلام کا مستقبل بچ جائے اب اگر اس کی کوئ دوسری مثال ملتی ہے تو وہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا ہیں۔ معرفت کی وہ منزل ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرادے کر ولایت کا تحفظ ،امور خانہ داری ، فرزند زہرا س سے بے پناہ الفت و محبت اور اپنے بچوں کی تربیت کے ساتھ مکمل ثبوت فراہم کردیا۔ ایک مختصر سے وقت میں اور جمعہ کے خطبہ میں عزیزم حجتہ الاسلام مولانا علی عباس امید صاحب نے جو کچھ بیان کیا وہ قابل ستائش ہے۔اچھی فکر ، عمدہ انداز، شوکت الفاظ اور بہترین انداز تبلیغ ہے۔ بات وہی اثر کرتی ہے جو۔۔۔ ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامی دارد ۔عزیزم سلامت رہیں اور خدمت دین کرت
  • ADEEBUL HASNAIN IN 18:37 - 2025/12/04
    जनाब मौलाना अली अब्बास उम्मीद आज़मी साहब के इन्टरव्यू का सारांश की एक महिला हजरत उम्मुल बनीं के आदर्शों का पालन करे तो एक परिवार ही नहीं एक आदर्श राष्ट्र का निर्माण कर सकती है ये वो यथार्थ है जो केवल किताबों के पन्नों के नहीं बल्कि इतिहास में दर्ज है । हज़रत अब्बास इस बात की मिसाल हैं। मैं मौलाना के हक़ में दुआ करता हु कि अल्लाह ताला आपकी इल्म में आज़ाफा करे और पैग़ाम मासूमीन को मोमिनिन के क़ुलूब तक पहुंचाए। आमीन या रब्बुल आलेमीन।